Bismillah Welcome Message
Asmaul Husna 99 Beautiful Names of Allah
آغا علی شرف الدین موسوی بلتستانی کی کتاب صرخہ حق سے اقتباس
صرخہ حق اِس دبے ہوئے مظلوم و مقہور انسان کی آواز کوکہتے ہیں جو اپنی بات کی حقانیت پر یقینِ محکم یا یقینِ قاطع رکھتا ہے ۔ صرخہ حق داعیانِ الہٰی کی آواز ہے جواپنے اوپر ہونے والی وحی منزل پر یقینِ کامل رکھتے تھے ۔ صرخہ حق ان مومنینِ صادق کی آواز ہے جو دل و جان سے حقانیتِ انبیاء پر یقینِ غیر متزلزل رکھتے ہیں۔ صرخہ حق ان انسانوں کی آواز ہے جنہیں قرآن کریم جو بیان محکم لسانِ بین جن و بشر کو باطل قوتوں کی دعوتِ مقابلہ و مبارزہ دیتا ہے اس پر نازہے ۔ صدائے حق اس نبی کی تأسی و پیروی ہی میں راہ نجات ہے ۔ جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے ’’ومااتکم الرسول فاخذو‘‘ ۔ صرخہ حق ان دانش پرستان کے خلاف ہے جو دانش اور فرسودگی کی آمیزش پر ایمان رکھتے ہیں ۔ صرخہ حق علمائے عوام پرستاں و خرافات فروشاں کے خلاف ایک آواز ہے ۔ صرخہ حق اس مظلوم و مقہور ومحسور انسان کی آواز ہے جسکے تمام حق آزادی فکر ، حقِ تحقیق، حقِ نشرو اشاعت و حق وراثت تک چھین لیے گئے ہیں۔ صرخہ حق ان قاضیان و ذاکراں و گھوڑا پرستاں و سینہ کوباں ، چشمِ گریاں اور یا حسین یا حسین پکارنے والوں کے خلاف ہے جو دین و شریعت حلال و حرام کی حدود کو حسین کے نام سے اپنے پاؤں تلے روندتے ہیں۔ صرخہ حق ان کے خلاف ہے جو بتوں اور خرافات و اباطیل کے بارے میں دبی اور نرم آواز میں بات کرنے کی بات کرتے ہیں جو آیات قارعۃ و صیحہ سے چشم پوشی کی بات ہے۔
صرخہ ہم وزن وقریب المعنیٰ صیحہ ہے صرخہ جیسا کہ اساس البلاغہ میں آیا ہے (لہ عولۃ کعولۃ الثکلیٰ صراخ حوت المستغیث وحدیث المغیث )صیحہ اساس البلاغہ (صاح صیحہ تاداہ صح لی بفلان ادعہ لی تصایحو صاحو وتصایحو تداعو اتیتہ قبل کل صحیح ونفر یعنی قبل کل شئی وغضب میں غیر صحیح ونفر)(ترجمہ آنا چاہیے)امام حسین ؑ نے روز عاشورا اہل کوفہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:(حین استصرختمونا والحین فاصرخناکم موجفین سلسلتم علینا سفینا لنا فی ایمانکم وحششتم علینا نارا اقتدحناھا علی عدونا وعدوکم) ( ثصرح من جور قضاۂ الدماء ، وتعج منہ المواریث۔ الی اللہ أشکومن معشر یعیشون جھالا )(خطبہ۱۷)(أقوم فیکم مستصرخا۔ وأنادیکم متغوثا۔ فلا تسمعون لی قولا، ولاتطیعون لی أمرا )(خطبہ۳۹)( وقر۔ سمع لم یفقہ الواعیۃ۔ وکیف یراعی النباۃ۔ من اصمتہ الصیحۃ )(خطبہ۴)( وکونوا قوما صیح بھم فانتبھوا، وعلموا أن الدنیالیست لھم بدار فاستبدلوا)(خطبہ۶۴) ( )(خطبہ۱۵۷)( وان أھل الدنیا کرکب بیناھم حلوا اذصاح بھم سائقھم فارتحلوا)(صاحہ۴۱۵)(اردو ترجمہ ہونا چاہیے)ادارہ اس مجلے کی حدود کے اسباب و عوامل بیان کرنا اور یہ بھی وضاحت کرنا چاہتا ہے کہ اس مجلے کے نام میں کیوں صرخہ استعمال کیا گیا ہے۔ قارئین کرام کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ صرخہ بلند اور تند و تیز آواز کو کہتے ہیں۔ بلند اور تند وتیز چیخ و پکار کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں آہستہ آواز سنی نہیں جاتی ،اور یہ کیوں نہیں سنی جاتی ، کون اسے سننا نہیں چاہتا اورکون اسے سننے نہیں دیتے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے خیال میں یہ آواز ان کے مفادات سے متصادم ہے ۔سوال یہ ہے کہ یہ آواز ان کے مفادات سے متصادم کیوں ہے؟ جہاں خاندانی تعارف سے لوگ تعاون وآشتی اور ہم کاری کی بجائے اپنے لئے مفادات کھینچنے پر تلے رہتے ہیں ، یہاں سے خاندانوں میں چپقلش شروع ہو جاتی ہے ،اسی لئے ہم اس مجلہ کے مضامین خاندانی بنیاد وں پر اٹھا رہے ہیں۔ برادران و دانش پرستان اس حق وحقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک حقیقت ناپذیر ہے کہ آپ حضرات چاہے ہم سے یا ہمارے افکار وعقائد سے لا تعلقی کا اظہار کریں یا آپ خنمے کا امام بارگاہ جا کر علم پکڑیں یا نماز جمعہ کیلئے مسجد ضرار جائیں اورواپسی پر ماسڑ فضل صاحب سے ہاتھ ملا کر آجائیں یا آپ معمولی سی باتوں پر سنیوں کے خلاف جلوس نکالیں یا روڈ بند کریں،آپ حضرات کو اس وقت تک کو ئی نوکری نہیں ملے گی جب تک آپ اسلام اور ہجر اسلام کے خلاف جسارت کرنے والوں کے ساتھ نہیں ملیں گے یا بطور رشوت کثیر رقم جمع نہ کرائیں گے۔صیحہ قرآن:(وَأَخَذَ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَأَصْبَحُوا فِی دِیَارِہِمْ جَاثِمِین۔ ’’اور ظالموں کو بڑے زور کی چنگھاڑ نے آدبوچا، پھر تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے رہ گئے‘‘)( ہود۶۷)(قَالَ یَاقَوْمِ أَرَہْطِی أَعَزُّ عَلَیْکُمْ مِنْ اﷲِ وَاتَّخَذْتُمُوہُ وَرَاءَکُمْ ظِہْرِیًّا إِنَّ رَبِّی بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِیطٌ۔ ’’انہوں نے جواب دیا کہ اے میری قوم کے لوگو! کیاتمہارے نزدیک میرے قبیلے کے لوگ اللہ سے بھی زیادہ ذی عزت
ہیں کہ تم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے یقیناًمیرا رب جو کچھ تم کر رہے ہو سب کو گھیرے ہوئے ہے‘‘۔)(ہود۹۲)( فَأَخَذَتْہُمْ الصَّیْحَۃُ مُشْرِق۔ ’’پس سورج نکلتے نکلتے انہیں ایک بڑے زور کی آواز نے پکڑلیا‘‘)( حجر ۷۳)( فَأَخَذَتْہُمْ الصَّیْحَۃُ مُصْبِحِینَ ۔ ’’آخر انہیں بھی صبح ہوتے ہوتے چنگھاڑ نے آدبوچا‘‘)( حجر۸۳) ( فَأَخَذَتْہُمْ الصَّیْحَۃُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاہُمْ غُثَاءً فَبُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ۔’’بالآخر عدل کے تقاضے کے مطابق چیخ نے پکڑ لیا اور ہم نے انہیں کوڑا کرکٹ کر ڈالا، پس ظالموں کیلئے دوری ہو‘‘۔ )( مومنون۴۱)(إِنْ کَانَتْ إِلاَّ صَیْحَۃً وَاحِدَۃً فَإِذَا ہُمْ خَامِدُونَ ۔’’ وہ تو صرف ایک زور کی چیخ تھی کہ یکایک وہ سب کے سب بجھ بجھا گئے۔‘‘ ) ( ےٰسین۲۹)( إِنْ کَانَتْ إِلاَّ صَیْحَۃً وَاحِدَۃً فَإِذَا ہُمْ جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُونَ۔’’ یہ نہیں ہے مگر ایک چیخ کہ یکایک سارے کے سارے ہمارے سامنے حاضر کر دیئے جائیں گے۔‘‘)( ےٰسین۵۳)( یَوْمَ یَسْمَعُونَ الصَّیْحَۃَ بِالْحَقِّ ذَلِکَ یَوْمُ الْخُرُوجِ ۔ ’’جس روز اس تند و تیز چیخ کو یقین کے ساتھ سن لیں گے ، یہ دن ہوگا نکلنے کا‘‘۔)( ق۴۲)(وَمَا یَنظُرُ ہَؤُلاَءِ إِلاَّ صَیْحَۃً وَاحِدَۃً مَا لَہَا مِنْ فَوَاق۔ ’’انہیں صرف ایک چیخ کا انتظار ہے جس میں کوئی توقف نہیں ہے۔‘‘) ( ص۱۵)
یہ گونجنے والی آوازجسے ہم نے صرخہ حق کہا ہے اگر اسے بھی نہ سننے کا بہانہ بنایا تو ان آیات کریمہ کی تلاوت بمعہ ترجمہ کریں اور انتظار کریں ( فَذَرْہُمْ حَتَّی یُلاَقُوا یَوْمَہُمْ الَّذِی فِیہِ یُصْعَقُونَ ’’ تو انہیں چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں اس دن سے سابقہ پڑے جس میں یہ بے ہوش کر دیئے جائیں گے‘‘) (طور ۴۵) (یَوْمَ لاَیُغْنِی عَنْہُمْ کَیْدُہُمْ شَیْءًا وَلاَہُمْ یُنصَرُونَ ’’جس دن انہیں ان کا مکر کچھ کام نہ دے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے‘‘)(طور ۴۶)( وَإِنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَلِکَ وَلَکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لاَیَعْلَمُون ’’بیشک ظالموں کیلئے اسکے علاوہ اور عذاب بھی ہیں لیکن ان لوگوں میں سے اکثر بے علم ہیں ‘‘)َ (۴۷) (وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَإِنَّکَ بِأَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِینَ تَقُوم ’’تو اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر سے کام لے، بیشک توہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ صبح کو جب تو اٹھے اپنے رب کی پاکی اور حمد بیان کر‘‘)ُ (۴۸) ) (طور۴۵تا۴۸) یہ نہ سمجھیں کہ صرخہ حق کا مخاطب صرف تنہا خاندان وفروپا ہے۔ ایسا نہیں بلکہ یہاں کے حافظان دین وشریعت کے دعویدار اور حلال وحرام کی رٹ لگانے والے سب اسکے مخاطب ہیں۔ صرخہ کے مخاطب وہ افراد ہیں جو بات بات میں اسلام و شریعت کا نام لیتے ہیں لیکن شریعت محمد ؐ کو پائمال کر کے شریعت دقیانوسی و الحادی کو اپناتے ہیں اور یہاں کے بت پرستوں کی رسومات کو رواج دیتے ہیں۔ شریعت شریعت کہہ کر فاسق و منافق احرام پوشوں کی ڈانٹ سننے کے بعد بے تاب ہو جاتے ہیں۔ صرخہ کے مخاطب خلاف عقل و خلاف شریعت منبر سے بیان کرنے والے صرف چھورکاہ شگر کے علماء مراد نہیں بلکہ جن جن لوگوں نے یہاں نصیریت پھیلائی وہ سب مخاطب ہیں ۔ہم یہاں پہلے مرحلے میں خود خاندان کا تعارف پیش کرتے ہیں۔
۱ آواز حق نماز مغربین میں پڑھنے والی قرأت جیسی ہے یعنی یہ وہ صدا ہے جسے خاص و عام اعلانیہ و برملاء بلند آواز سے سنتے ہیں ۔ آواز حق وہ تقریر و گفتگو نہیں جیسے علماء حضرات فرماتے ہیں کہ دین کی ہر بات اجتماع عام میں کہنے اور تحریر میں لانے کی نہیں ہے، بلکہ بعض باتیں صرف دل میں رکھی جاتی ہیں۔ بقول آقا رئیسی انہیں تحریر میں نہیں لانا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے یہ باتیں دوسروں کے ہاتھ لگ سکتی ہیں۔ غرض اس قسم کی باتیں صرخہ نہیں ۔صرخہ حق سچ پر مبنی وہ باتیں ہوتی ہیں جو دوست دشمن ، کم سننے اور تیز سننے والے سب کو سنانے کیلئے ہوتی ہیں۔یہاں کافر ومنافق، مسلمان انپڑھ اور پڑھے لکھے سب یکساں ہیں۔اسی لیے قرآن کریم میں یا ایھا الناس یا معشر الجن و الانس سے خطاب کیا گیا ہے۔ یقیناً جب مقصد سب کو سنانا ہو تو بلند آواز سے پکاریں گے تاکہ سب سن سکیں۔لیکن ہمارے رشتہ دار اور حوزے کے بھائی فقیہ قتل گاہ دین وشریعت آقائے جوہری اور رئیس واستاد جامعہ عروۃ الوثقیٰ آقای رئیسی اور جناب آقای سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ یہ باتیں صفحات میں نہ لائیں کیونکہ ایسا کرنے سے یہ نوربخشیوں اور سنیوں اور سپاہ صحابہ کے ہاتھوں لگ سکتی ہیں اس لیے بلند آواز کی بجائے سرگوشی میں خاص خاص افراد کو بتائیں ۔
۲۔ دلائل قوی و مستحکم سے جب مستند باتیں باطل سے ٹکراتی ہیں تو وہ کانوں میں انگلیاں دے کر آنکھوں پرپٹی باندھ لیتے ہیں۔جیسا کہ فقیہ علی آباد اور بعض دانش پرست علاقہ چھورکاکہ جنکی آنکھوں میں ہماری کتاب موضوعات متنوعہ دیکھتے ہی دُھند پڑ گئی ہو۔اگر ہم نے صرخہ حق کو دانشوران و دانش پرستان کی خدمت میں پیش کیا تھا تو ہمارے مخاطب صرف دانشوران چھورکاہ نہیں بلکہ وہاں کے رہنے والے اور وہاں سے یہاں آکر دانش پرستی کرنے والے یا اس کے آس پاس دار الخلافہ نصیری آبادمیں رہنے والے سب مقصود ہیں۔یہ دانشوران اپنے علم اور آگاہی کے تقاضے کو پورا نہیں کرتے انھیں بلتی زبان میں(میگ تھونگ) ’’آنکھ سے نہ دیکھنے والے‘‘ کہتے ہیں جو پڑھ نہیں سکتے انھیں کچھ نظر نہیں آتا ہے گویا اگر کسی کی چشم بندی کرنا چاہتے ہیں اسکی آنکھوں میں دھند پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ایسے ہی کتابیں پڑھنے دیں انکی بینائی آسانی سے ختم ہو جائے گی۔اگر علاقہ چھورکاہ میں موجود ۱۶ سال پڑھنے والے بعض نوجوان دانشور جب میری کتاب یا کوئی دینی کتاب پڑھتے ہیں اور اس کتاب کے مضامین ان کے عقائد نصیریت پر مبنی عقائد کے خلاف دیکھ کران کی آنکھوں میں دھند آ جاتی ہے۔ جیسا کہ جناب شیخ ضامن علی صاحب کی آنکھوں میں اسی طرح دیگر دانشوران کیلئے بھی ہماری کتاب متنوعہ اور مجلہ صرخہ حق ان کی آنکھوں میں دھندکا باعث بنی۔ انھیں جگر تھام کر رکھنا پڑا ایسی صورت حال میں ان کے اور مشرکین مکہ کے درمیان چندان فرق نہیں رہتا کیونکہ وہ کہتے تھے ہمارے کانوں میں آواز نہیں آتی ( وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِی أَکِنَّۃٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَیْہِ وَفِی آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِنْ بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ ۔ہمارے دل تو اس سے پردے میں ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے اور ہم میں اور تجھ میں ایک حجاب ہے ، اچھا تو اب اپنا کام کیے جا ہم بھی یقیناًکام کرنے والے ہیں)(فصلت۵) یہ کہتے ہیں کہ ان کتابوں کو ہماری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں گویاان کی آنکھوں پر پردہ ہے ۔لہذا جن کے کانوں میں کپاس ہے وہ دبے الفاظ میں نہیں سن سکتے۔
ان کی خاطر بلند آواز سے سنانے کی ضرورت ہے اس لئے ہم نے صرخہ استعمال کیا ۔بہت سے نصیریوں کیلئے ہمارا لہجہ ناگوار بنا ہواہے چنانچہ وہ کہتے ہیں آپ کا لہجہ بہت سخت ہے۔لیکن اگر کسی نے اپنے فاسد عقائد کو قلعہ بنی نضیر میں بند کیا ہو یا اس نے قلعہ بوجھلی میں پناہ لی ہو تو ان کیلئے صرخہ بھی کام نہیں آئے گا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ہماری حمایت کریں بلکہ ہم آپ کی خدمت میں یہ گزارش کرتے ہیں کہ ہم نے کاوش و کوشش اور انتہائی مشکل اور غیر متعصبانہ تحقیق سے قرآن و سنت اور آپ کے پسندیدہ علماء کرام کی کتابوں سے جو عقائد و نظریات آپ تک بھیجے ہیں اگر وہ واقعی قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہیں تو انہیں تسلیم کرنا اور دوسروں تک پہنچانا آپ پر واجب ہے یہ بات آپ کے لیے باعث ندامت نہیں بلکہ کامیابی کی ضامن ہو گی ۔قرآن فرماتا ہے( قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ اﷲُ وَإِنَّا أَوْ إِیَّاکُمْ لَعَلَی ہُدًی أَوْ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ (۲۴) قُلْ لاَتُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلاَنُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ (۲۵)’’ پوچھئے تمہیں آسمانوں اور زمین سے روزی کون پہنچاتا ہے؟ (خود) جواب دیجئے ! کہ اللہ تعالیٰ (سنو) ہم یا تم یا تو یقیناًہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں ہیں ۔کہہ دیجئے ! کہ ہمارے کیے ہوئے گناہوں کی بابت تم سے کوئی سوال نہ کیا جائے گا نہ تمہارے اعمال کی بازپرس ہم سے کی جائے گی) (سبا۲۴،۲۵) جہاں نبی کریم سے بھی مشرکین نے ایسا ہی سلوک کیا تھا۔ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم غلط ہیں تو ہماری ہدایت کریں لیکن اگر بات درست ہے تو برائے مہربانی ہماری دبی ہوئی آواز کو اپنے قرب و جوار کے عوام الناس اور حلقہ احباب میں پہنچائیں۔یہ ہمارا ایک خط ہے جسے ہم نے آپ کی معرفت سے عوام الناس کو بھیجا ہے اور آپ اس کے امین ہیں۔جب تک آپ اس کو آگے نہیں پہنچائیں گے آپ بری الذمہ نہیں ہونگے یہ اس آیت کریمہ کا ترجمہ ہے کہ ہم دونوں میں سے ایک گمراہ ہے۔ہم ان صفحات میں جناب آقائے شیخ ضامن علی مقدسی اور دیگر علم پرست دانشوروں کے اس رویے کا تذکرہ کریں گے جو انہوں نے ان چند سالوں میں ہمارے ساتھ روا رکھا ہے ۔اسے بیان کر کے ہم اہل دین ودانش،اللہ پرستوں کے وجدان وضمیر سے مخاطب ہونگے۔نیز ساتھ ہی دیگر کتب مجلات میں میری ملفوضات کو قابل قرأت بنانے والے مجھے اس دور ہجران احباب و اعزاء آشیانہ کے موسنین کے احسانات کی عنایت
اپنی حیاۃ مظلومانہ کی صفحات میں فراموشی نہیں کرنی ہے۔ یہ برادران جناب ملک اظہر صاحب ،ابرار حسین ، محمد علی نقوی ، ارشدعباس ، خادم حسین ، مبشر حسین اور ناصر نقوی کو ان صفحات کے اپنے نامہ اعمال کے صفحات میں ساتھ لے کر جاناہے ۔
آپ کی نیک تمناؤں کے داعی۔ محصور شعب ناظم آباد
علی شرف الدین
Labels: Sects are not allowed in Islam
Agha Syed Ali Sharfuddin Baltistani
Agha Syed Ali Sharfuddin Mousawi (Arabic: آغا علی شرف الدین موسوی) was born on 29 January 1941 C.E. in a religious family at Shigar ,Baltistan.Agha Ali Sharfuddin got his early education from Shigar,a valley in Baltistan.The books he studied at local religious school inBaltistan include Quran Majeed,Pand Nama, Karimia, Gulistan, Bostan, Alkafi,Nahjul Balagha and Biharul Anwar. Then in the early 1957 C.E. , he went to Iraq for higher education and got admission in ḥawza ʻilmiyya Najaf and studied there for 13 years[1] .He also studied in Qom Iran Then he came back to Karachi and started to teach in a local Madrassa.
Education at Hawza Elmiye Najaf
In 1981, he moved to ḥawza ʻilmiyya Najaf to finalize his religious education[2].He attended the lectures of the following marjas:[3]
- Grand Ayatollah Mohsin Al-Hakim for dars-e-kharij of Fiqh
- Grand Ayatollah Sayyed Javad Tabrizi for dars-e-kharij of Kifaya-tul-Usool
- Grand Ayatollah Meerza Baqir Zanjani for dars-e-kharij of Usool-e-Fiqh
- Grand Ayatollah Bazurg Tehrani for Fehm-e-Hadees-o-Rajjal & Kutb Shanasi
- Grand Ayatollah Mahmood Shahroudi for dars-e-kharij of Fiqh
- Grand Ayatollah Abdul Aala Sabzwari for dars-e-kharij of Fiqh
- Grand Ayatollah Abul Qasim Rashti for Rasail-o-Makatib
- Grand Ayatollah Abdul Hussain Amini (the writer of famous Al-Ghadeer) for Ilm-e-Munazira
- Grand Ayatollah Mulla Sadra for Satheeyat & Asfar
- Grand Ayatollah Aqae Muhaqqiq for Darse Manzooma Sabzwari
- Grand Ayatollah Aqae Fazel for Ilm-e-Kalam
- Grand Ayatollah Abdul Karim Zanjani for Tanawwo dar Islami Uloom-o-Funoon and Ittehad-e-Islami
His contribution
He was very inspired by Shaheed Mutahhari,Ayatollah Fadhlollah and Allama Naqi.He started the revival in Shi'a Islam by preaching them the true and authentic teachings of Quran and Mohammed's progeny.He shared his part regardless of the hardship and scarcity of resources and lack of travelling facilities, and made a lot of sacrifices to preach true teachings of Islam among the mass. He made reforms in Ijtehad,tawassul and temporary marriage. He also wrote a number of books and articles for the propagation of his cause. The major work that he has done is the establishment of "Darus-saqafat-ul-islamia" which publish books and traditions of Islam. This organization made valuable steps towards the preservation of Islamic culture and values. His most influential contribution is the writings about the Ma'tam and Azadari. He tried to divert the attention of Shia community towards the real spirit of incident of Kerbala[4]. So far his books "Azadari kyon?" ,"Tafseer-e-Ashura" and "Qiyam-e-Imam Hussain" have made him a renown scholar among shia community.
His Books
Agha ali Sharfuddin wrote books on various Islamic topics:
- Mozoat_e_Mutanawiya
- Azadari Kiyun
- Sawalat Wa Jawabat
- Shia_e_Ahl al-Bayt
- Muhammad_Mustafa
- Quran_ka_difa
- Kienat_Ka_Khaliq
- Intekhab-e-Masaeb
- Aqaeid-o-Rasomat
- Jughrafiaey_Jaeza
- Aqaeid-o-Rasomat
- Quran main Imam wa Ummat
- Maktab-e-Tashayyu aur Quran
- Batniya
- Quran aur mustashreqeen
References
- Islah e Rasoom
- Falsafa e Shahadat Imam Hussain
- Quarterly Al-Balagh
- Al-Islam magzine
- Wake Up! Defend the Quran by Syed Ali Sharfuddin Moosavi
- Online books on comparative religion
- کتب ومولفین حیات وقیام امام حسینؑ
- Review on a Book about Masjid by Sharfuddin mousavi
Subscribe to:
Comments (Atom)

